- Voice of Haripur

Breaking

Friday, January 24, 2020





ؓبچوں کو گود لینا                                       تحریر: سائرہ بتول
زندگی مختصر سہی،مگر وسیع تجربات زندگی کے لئے سمت متعین کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں بار بار مشاہدہ کرنے کی دعوت دی ہے، کائنات کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے لئے جہاں مشاہدہ ضروری ہے وہیں پر اپنے اندر موجود کوتاہیوں اور نادانیوں کو تدارک بھی انتہائی اہم ہے زندگی ایک جہد مسلسل کا نام ہے، اور ہم نے اور ہمارے معاشرے کے افراد نے اسے جبرمسلسل بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے. جہاں ہماری بہت ساری کوتاہیوں معاشرے اور ناصرف اس قوم کے زوال کا سبب ہیں وہیں پر ایک بڑی وجہ ہماری جھوٹی انا ء کے ساتھ ساتھ ہماری تنگ دلی بھی ہے.طفل مکتب کی حثیت سے جب معاشرے کے لوگوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع ملتا ہے تو مزید انکشافات ہوتے ہیں، مشاہدات ونظریات کی روشنی میں آج کا ایک اہم سوال یہ ہے کہ ہم صاحب  حثیت ہو کر بھی ایک نومولود کو گود لینے کے روادار نہیں ہوتے. اور اگر کسی یتیم یا لاوارث کی کفالت کی ذمہ داری اگر لے بھی لیں تو اس کے نتائج کیا نکلتے ہیں.
ایک معصوم کو سڑک کنارے بھیک مانگتے دیکھ کر اس کی جھولی میں دو سکے ڈال کر اپنی چمکتی دمکتی گاڑی میں بیٹھنے کے بعد منزل کی جانب رواں دواں ہوگئے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ آپ نے انسانیت کی خدمت کا حق ادا کردیا ہے تو مبارک ہو، آپ نے ایک ایسے مجبور کو پروان چڑھانے میں اپنا حصہ ڈال دیا ہے جو ساری زندگی دوسروں کی چوکھٹ پر بیٹھ کر اپنے رزق کا انتظار کرے گا.حالانکہ آپ کی جیب میں پڑا والٹ اور آپ کی چمکتی دمکتی کار اس بات کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہے تھے کہ اگر آپ اس کی کفالت کی ذمہ داری لے لیتے اور اس کی تعلیم وتربیت کا بندوبست کرتے تو نا صرف معاشرے کو ایک عقل مند ذہن فراہم کرتے جو شاید معاشرے کو سنوارنے کا ایک ذریعہ ہوتا.
نا صرف دنیا میں خداوند تعالیٰ آپ کو سرخروکرتے بلکہ آخرت میں بھی آپ مقربوں میں شامل ہوتے.اگر آپ کے محلے یا شہر میں کوئی بچہ ایسا ہے جو کہ آپ کی توجہ کا مستحق ہے آپ کی نظرکرم کا منتظر ہے اور آپ کی معاشی حثیت آپ کو اجازت دیتی ہے کہ اس بچے کو گود لے لیا جائے مگر آپ اگر یہ سوچ کر اپنا فیصلہ موخر کردیتے ہیں کہ کل کلاں کو جائیداد میں حصہ نہ دینا پڑجائے یا پڑھ لکھ کر آپ کی اولاد سے آگے نہ نکل جائے یا پھر یہ کہ دوسروں کا بوجھ کیوں اپنے ذمہ لوں میری تو تھوڑیاں مجبوریاں نہیں، تو مبارک ہو آپ کے اندر آپ کی انسانیت مرچکی ہے کیونکہ بچے تو اللہ کے باغ کے پھول ہوتے ہیں اور پھولوں میں تفریق کیسی؟ رہی بات زندگی کی دوڈ میں آگے نکلنے کی تو جسے اللہ نوازنا چاہتا ہے اس کی حثیت نہیں دیکھتا ویسے بھی کہتے ہیں ناں کہ جس پھول نے کھلنا ہوتا ہے وہ کچرے کے ڈھیر پر بھی کھل جاتا ہے، اور اگر آپ بچوں کو دوسروں کا بوجھ سمجھتے ہیں تو معاف کیجئے گا یہ صرف اور صرف آپ کی تنگ نظری ہے.
دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر آپ نے ایک یتیم کو گودلینا ہے تو چلیں دل گردے کا کام ہے بالفرض آپ نے اس کی کفالت کی ذمہ داری لے لی تو بہت خوب، آپ شاباش کے مستحق ہیں لیکن اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ آپ کے غلام ہیں، آپ کی ملکیت ہیں، آپ جیسے چاہیں ان کے ساتھ سلوک روا رکھیں، بدتہذیبی، لعن طعن اور سرعا م گالم گلوچ کریں اور ان کی عزت نفس کو پامال کریں اور اگر کوئی آپ کو اس سب سے باز رہنے کی تلقین کریں اور آپ اکڑ کر جواب دیں کہ    ”میرا کھاتا/ کھاتی ہے اگر میں نے غصے میں کچھ کہہ بھی دیا تو اتنی بڑی بات نہیں“ یعنی آپ کے نزدیک یہ ایک معمولی بات ہے.
ٹھہرئیے!کیا آپ نے نہیں سنا کہ یوم محشر پوچھا جائے گا ”کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو روزِجزا کو جھٹلاتا ہے،
فذلک الذی یدعو الیتیم
یہ وہی بدبخت ہے جو یتیم کو دھکہ دیتا ہے، تو سوچئے، آپ کی اس وقت کیا حالت ہوگی؟ اس وقت آپ کی وہ اولاد، وہ مال، وہ شان وشوکت  جس کے پیچھے تم نے رب کریم کے ہر حکم کو پس پشت ڈالا  تھا تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے.
اگر آپ اشیائے خورد ونوش لے کر آتے ہیں لیکن آپ چھپ کر صرف اپنے بچوں کو کھلاتے پلاتے ہیں لیکن یتیم کا آپ کو خیال نہیں آتا، اگر آپ اپنے بچے اور یتیم بچے کے درمیان جھگڑے کی وجہ یتیم کو وہ کھلونا دیکھتے ہیں جو آپ کے بچے کو پسند آگیا ہے اور آپ یتیم کو دو تھپٹر جھڑ کر یا جھڑک کر وہ کھلونا اپنے بچے کو دلوا ا دیتے ہیں تو معاف کیجئے گا آپ ایک خودسر بچے کی پرورش کررہے ہیں.اور اسے یہ ترغیب دے رہے ہیں کہ جو چیز آپ کی نہیں اسے بھی چھین کر لیاجائے.اور آپ جیسا کم ظرف کوئی نہیں ہے، آپ کو اصلاح کی ضرورت ہے. چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے اندر موجود اس برائی کو مارنا ہے جو ہماری نیکیوں کی راہ میں حائل ہورہی ہے اور نیکی کی راہ پر چلتے چلتے بھی ہمیں برائی کی دلدل میں دھنسا دیتی ہے.اپنے لئے عزت، پیسہ، شہرت لازم مانگیں لیکن اس کے ساتھ ظرف بھی ضرور مانگا کریں کیونکہ ظرف ایک ایسا برتن ہے جو ان چیزوں کو گرنے نہیں دیتا اور اگر ظرف نہیں ہوگا تو یہ ساری چیزیں برتن سے پانی کی مانند بہنا شروع ہو جائیں اور پھر معاشرے کو تباہی سے کوئی نہیں بچاسکتا.اس کے ساتھ ہمیں اپنے دلوں اور سوچ میں وسعت پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ جتنا وسیع ہمارے سوچ کا دائرہ ہوگا اتنا ہی ہم دوسروں کو ان کی خوبیوں، خامیوں، کمیوں کوتاہیوں اور عیوب کے ساتھ قبول کرنے کا مادہ بڑھے گا اور اتناہی ہم دوسروں کے درد کو بطور اپنا درد محسوس کرسکیں گے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب آپ دوسروں کی اولاد، مال  اور جان کا دکھ اپنی ذات پر سہہ لیتے ہیں تو خداوند کریم آپ کو اپنی اولاد، جان اور مال کے دکھ سے آذاد کروا دیتے ہیں کیونکہ عموما یہ کہا جاتا ہے کہ دوسروں کی تکلیف محسوس کرنے والا ہی اصل انسان ہے ورنہ اپنا درد تو جانور بھی محسوس کرتے ہیں


No comments:

Post a Comment

thanks for comments, we contact you soon